نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ کیا ہے؟

سوال. 7 : سب سے پہلے کس مسجد میں اذان دی گئی؟
اس سوال کا صحیح جواب ہے :
C. مسجد نبوی
علامہ قرطبی رحمہ اللہ سورہ مائدہ آیت نمبر 58/ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
" وَلَمْ يَكُنِ الْأَذَانُ بمكة فبل الهجرة، وإنما كانوا ينادون "الصلاة جامعة"
کہ ہجرت سے پہلے مکہ میں اذان مشروع نہیں ہوئی تھی، بل کہ " الصلاۃ جامعۃ" کہہ کر کام چلایا جاتا تھا،
اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت تک بہت کم تھی اور انہیں نماز کے لیے جمع کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی اور وہ آسانی کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لیے جمع ہوجاتے تھے۔
لیکن جب نبی کریم ﷺ مکۃ المکرمہ سے مدینۂ منورہ تشریف لائے تو اس کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا۔ پھر مسجد نبویؐ کی تعمیر کے بعد بھی نماز کے وقت لوگوں کو مسجد میں جمع کرنے کے لیے کسی خاص طریقے کو اختیار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اس موقع پر صحابۂ کرام نے مختلف طریقے تجویز کی۔ مثلاً گھنٹی بجانا، گھڑیال اور ناقوس بجانا، ڈھول پیٹنا یا کسی اونچی جگہ پر آگ جلاکر لوگوں کو نماز کے لیے مطلع کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ اس وقت مختلف اقوام میں یہی طریقے رائج تھے۔ مگر نبی کریمﷺ نے مذکورہ بالا طریقوں میں سے کسی بھی طریقے کو پسند نہیں فرمایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان تمام طریقوں میں دوسرے مذاہب کی مشابہت پائی جاتی تھی اور اﷲ کے نبیﷺ نماز کی دعوت عام دینے کے لیے کوئی منفرد طریقہ چاہتے تھے۔
مسلم کی حدیث کے مطابق صحابہ نے باہمی مشاورت سے حضرت عمرؓ کے تجویز کردہ طریقے کو پسند کیا اور وہ طریقہ فطرت انسانی کے عین مطابق تھا ۔ یعنی آواز دے کر بلانا۔
اذان کے الفاظ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عبداﷲ بن زیدؓ کو خواب میں الہام ہوئے۔ نبی کریمﷺ نے اس کی تائید فرمائی کہ یہ خواب حق ہے۔ لہٰذا آپؐ نے حضرت بلالؓ کو اذان دینے کا حکم دیا ( کیوں کہ ان کی آواز بلند تھی) اس طرح اسلام میں نماز سے قبل اذان دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
یہ واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں "باب بدء الاذان" کے تحت مذکور ہے
تفصیل کے لیے سیرت النبی از علامہ شبلی نعمانی جلد 1 صفحہ 205
اور سیرۃ المصطفی از مولانا ادریس کاندھلوی جلد 1/ ص 241 تا 249/ وغیرہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں